My Design Urdu Poetry. www.iqbalhassan1.blogspot.com, design by iqbal hassan

Wednesday, May 16, 2018

How to create a logo

By http://iqbalhassan1.blogspot.com/


CorelDraw X7- How to design an Amazing Round Logo

By http://iqbalhassan1.blogspot.com/


Tuesday, May 15, 2018

Bandar Aur Bakri Ka Khel - Funny Video

By http://iqbalhassan1.blogspot.com/

Dunya Ki Khatarnak Tareen Roads | Some Of The Most Dangerous Roads In the World | TUT

By http://iqbalhassan1.blogspot.com/


Monday, May 14, 2018

iqbal poetry 17

By http://iqbalhassan1.blogspot.com/


حضرت صالح علیہ السلام

By http://iqbalhassan1.blogspot.com/



حضرت صالح علیہ السلام     
          


     قوم عاد کی تباہی اور بربادی کے بعد جو لوگ بچ رہے، وہ حجاز اور شام کے درمیان وادی قریٰ کے میدان میں آباد ہوگئے، شروع میں یہ قوم عادثانیہ کہلائی لیکن بعد میں اپنے کسی بزرگ کے نام پر اس قوم نے اپنا نام ثمود اختیار کیا۔
یہ قوم بھی پہلی بھٹکی ہوئی قوموں کی بت پرست تھی اور جب ان کے فسق و فجور حد سے بڑھ گئے تو اللہ تعالیٰ نے اپنی سنت کے مطابق قوم ثمود میں ہی سے حضرت صالح علیہ السلام کو نبوت کا شرف دے کر مبعوث کیا تاکہ وہ ان بدکردار لوگوں کو اگلی قوموں کے انجام کی داستانیں سنا کر ان کو بتائیں کہ ان کے خوفناک انجام کو دیکھو اور اپنی سرکشی سے باز آئو، کہیں ایسا نہ ہو کہ تم بھی خدا کے عذاب میں گرفتار ہو کر ان قوموں کی طرح دنیا سے ہمیشہ کے لیے نیست و نابود ہوجائو۔
جب اللہ تعالیٰ نے حضرت صالح علیہ السلام کو نبی بنا کر قوم ثمود کی طرف بھیجا تو انہوں نے اپنی قوم کو جمع کرکے برے کاموں سے بچنے اور خدا کی راہ اختیار کرنے کی ہدایت کی آپ نے اپنی قوم کو بار بار سمجھایا، خدا کے عذاب سے ڈرایا اور ان پر خدا کے فضل و کرم جتائے، لیکن ان پر مطلق کوئی اثر نہ ہوا، بلکہ اس کے جواب میں انہوں نے کہا۔
اے صالح، ہماری قوت، شوکت، دولت کی فراوانی، کھیتوں کی سرسبزی، عالی شان مکانات، غرض یہ کہ دنیا جہان کے عیش و آرام جو ہمیں حاصل ہیں تیرے ہی خدا کی طرف سے ہیں تو پھر وہ لوگ کیوں غریب اور نادار ہیں جو تیرے خدا کو ایک مانتے ہیں۔ اس کا تو مطلب یہ ہے کہ وہ راست پر نہیں اور یہ ہمارے ہی خدائوں کی تو کرم فرمائیاں ہیں۔
حضرت صالح علیہ السلام نے ان سے فرمایا کہ اس عقل و دولت اور شان و شوکت پر ہرگز گھمنڈ اور غرور نہ کرو۔ ایسی چیزیں پل بھر میں فنا ہوجایا کرتی ہیں۔
قوم ثمود کو سب سے بڑا تعجب یہ تھا کہ ہم میں سے ہی ایک شخص کیسے نبی بن گیا  اور اس پر خدا کا پیغام نازل ہونے لگا، اگر ایسا ہی ہونا تھا تو کیا ہم اس کے اہل نہ تھے، ہم ایسے رئیسوں اور بڑے آدمیوں کو چھوڑ کر اللہ نے غریب اور کمزور لوگوں کو اپنے پیغام کے لیے کیوں چنا۔
حضرت صالح علیہ السلام نے بارگاہ خداوندی میں دعا کی اور اللہ کا یہ نشان ایک اونٹنی کی صورت میں نمودار ہوا، قرآن میں تو اس کا کوئی تذکرہ نہیں، صرف خدا کی اونٹی کہا گیا۔
خداوند کریم کا اپنے رسول کے ذریعے یہ معجزہ بھی ان سرکشوں کو خدا کی طرف راغب نہ کرسکا۔ تاہم آپ نے اپنی قوم کو نصیحت کی کہ یہ اونٹنی خدا کی طرف سے تم پر حجت ہے، اللہ تعالیٰ کا نشان تم پر ظاہر ہوچکا ہے، اگر تم اپنی بھلائی چاہتے ہو تو اس اونٹنی کو ہرگز ہرگز نقصان نہ پہنچانا، یہ آزادی سے جہاں چاہے چرے، ہاں ایک روز یہ اونٹنی چشمے پر سے پانی پیا کرے گی اور دوسرے دن تم اور تمہارے جانور دیکھو اس میں فرق نہ آئے۔
کچھ دن تک اونٹنی کے حیرت انگیز واقعہ نے اس قوم کو حیران و پریشان رکھا اور وقتی طور پر اونٹنی سے کوئی معترض نہ ہوا، لیکن آہستہ آہستہ جن برائیوں کے ماحول میں انہوں نے پرورش پائی تھی وہ ابھرنے لگا اور انہوں نے سازش کرکے اونٹنی کو ہلاک کردیا جب حضرت صالح علیہ السلام کو اس واقعہ کی اطلاع ہوئی تو آپ کو بہت رنج ہوا اور آنکھوں میں آنسو آگئے۔
تین دن کے بعد کڑک اور گرج کی ایک ہیبت ناک آواز پیدا ہوئی، جس نے ہر انسان کو جو جس حالت میں تھا ہلاک کردیا، لیکن ہو لوگ جو حضرت صالح علیہ السلام پر ایمان لے آئے تھے اس عذاب الہٰی سے بچ گئے، جب قوم ثمود پر عذاب نازل ہورہا تھا تو حضرت صالح علیہ السلام نے قرآن حکیم کے الفاظ میں اپنی قوم سے مخاطب ہوتے ہوئے فرمایا۔
اے قوم، بلاشبہ میں نے اپنے پروردگار کا پیغام تم تک پہنچادیا اور تم کو نصیحت کی، لیکن تم تو نصیحت کرنے والوں کو دوست ہی نہ رکھتے تھے۔
قوم ثمود کی تباہی کے بعد جو لوگ بچ رہے وہ فلسطین میں آکر آباد ہوگئے۔

حضرت ابراہیم علیہ السلام

By http://iqbalhassan1.blogspot.com/



حضرت ابراہیم علیہ السلام     
        

 
     حضرت ابراہیم علیہ السلام بہت بلند مرتبہ نبی گزرے ہیں ان کے بعد جس قدر نبی یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم آئے وہ آپ ہی کی نسل سے تھے، پیغمبر آخر الزمان حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم آپ ہی کے بیٹے حضرت اسماعیل علیہ السلام کے خاندان سے تھے، یہی وجہ ہے کہ مسلمان اب بھی حضرت ابراہیم علیہ السلام کی ملت کہلاتے ہیں۔
آپ جس وقت دنیا میں تشریف لائے اس وقت نہ صرف بت پرستی کا بڑا زور تھا بلکہ اس زمانے کا بادشاہ نمرود بھی اپنے آپ کو خدا کہلاتا اور لوگوں سے اپنی پوجا کراتا تھا۔
سب سے دلچسپ بات یہ ہے کہ آپ کے والد آزر صرف بت پرست ہی نہ تھے، بلکہ بت گر بھی تھے، وہ بت بناتے، لوگ ان سے ان خدائوں کو خرید کر لے جاتے اور پھر ان کی عبادت کرتے۔
حضرت ابراہیم علیہ السلام ابھی بچے ہی تھے کہ وہ اپھے باپ کے کام کو دیکھ دیکھ کر سخت حیران ہوتے جن بتوں کو ان کے والد بناتے ہیں جو ہلنے جلنے سے بھی معذور اور محتاج ہیں۔ کس قدر احمق ہیں یہ لوگ جو ان بے جان مورتیوں کو خدا سمجھ رہے ہیں۔
جب ذرا سیانے ہوئے تو ان کا یہ عقیدہ پختہ ہوگیا کہ لکڑی،پتھر اور مٹی کے یہ بت کوئی حقیقت نہیں رکھتے، لیکن جب وہ لوگوں سے کہتے کہ تم ان کی کیوں پوجا کرتے ہو، ان میں اگر کوئی خوبی ہے تو مجھے بھی بتائو تو آپ کے سوال کا جواب تو کوئی نہ دے سکتے۔ صرف یہ کہہ کر ٹال دیتے کہ ہم تو وہی کرتے ہیں جو ہمارے باپ دادا کرتے چلے آئے ہیں۔
ایک دن ان بت پرستوں کا شہر سے باہر کوئی میلہ تھا، تمام لوگ میلے میں گئے ہوئے تھے، حضرت ابراہیم علیہ السلام کو ایسے میلوں ٹھیلوں سے کوئی دلچسپی نہ تھی اور اگر کسی نے میلے پر جانے پر اصرار بھی کیا تو آپ نے انکار کردیا۔ جب سارا شہر خالی ہوگیا تو آپ نے بت خانہ کے تمام بتوں کو توڑ پھوڑ دیا اور بعد میں کلہاڑی بڑے بت کے کندھے پر رکھ دی۔ شام کو جب یہ لوگ واپس لوٹے اور انہوں نے اپنے خدائوں کی یہ درگت دیھی تو بہت برا فروختہ ہوئے اور تلاش کرنے لگے کہ یہ حرکت کس نے کی ہے، آخر سب نے حضرت ابراہیم علیہ السلام پر شبہ کیا۔ آخر حضرت ابراہیم علیہ السلام کو بلا کو پوچھا کہ یہ بت کس نے توڑے ہیں۔
آپ نے جواب دیا مجھ سے پوچھنے کی بجائے اپنے خدائوں سے کیوں نہیں پوچھتے، جن کی تم عبادت کرتے اور مرادیں مانگتے ہو۔ پھر فرمایا دیکھو کلہاڑی تو بڑے بت کے کندھے پر ہے، اس سے پوچھو کہیں اس نے ہی تو تمہارے جھوٹے خدائوں کا صفایا نہیں کردیا۔
حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اپنے باپ کو بت پرستی سے روکا۔ اس پر ان کا باپ سخت ناراض ہوا اور کہا کہ آئندہ اگر تو نے مجھ سے ایسی بات کہی تو تجھے سنگ سار کردوں گا اور کہا کہ تم میرے پاس سے ہمیشہ کے لیے چلے جائو، آپ نے بات کو سلام کیا اور فرمایا کہ میں چلا جاتا ہوں اور تمہاری مغفرت کے لیے دعا کرتا رہوں گا۔
جب حضرت ابراہیم علیہ السلام کو کامل یقین ہوگیا کہ مٹی اور پتھر کے یہ بت خدا نہیں ہوسکتے تو آپ سوچنے لگے کہ آخر خدا کون ہے، رات جب نیلے آسمان پر چمکتے ہوئے ستارے دیکھ تو سوچنے لگے کہ یہ چمکتے دمکتے ستارے خدا ہوں گے، مگر تھوڑی دیر کے بعد جب ستارے بھی غائب ہوگئے تو حضرت ابراہیم علیہ السلام سوچنے لگے کہ جن چیزوں پر زوال آجائے وہ تو خدا نہیں ہوسکتیں اور اب آپ نے چمکتے ہوئے چاند کو دیکھا تو کہنے لگے ستارے تو نہیں یہ چاند ضرور ہوگا۔ مگر جب وہ بھی غائب ہوگیا تو آپ کہنے لگے کہ یہ بھی خدا نہیں ہوسکتا اور اگر خدا مجھے ہدایت نہ دیتا تو یقیناً گمراہ ہوگیا ہوتا۔ اب آپ نے جھمگاتے ہوئے روشن سورج کو دیکھا کہ یہ سب سے بڑا ہے، یہی میرا رب ہوگا، لیکن شام کو جب وہ بھی غروب ہوگیا تو آپ نے فرمایا، اے قوم میں ان تمہارے معبودوں سے سخت بیزار ہوں، جن کو تم خدا کا شریک ٹھہراتے ہو اور فرمایا کہ میں اس خدا کی طرف متوجہ ہوتا ہوں جس نے زمین اور آسمانوں کو پیدا کیا اور میں مشرک نہیں ہوں۔
اس پر حضرت ابراہیم علیہ السلام کی قوم آپ سے سخت ناراض ہوگئی اور ان سے جھگڑا کرنے لگی، آپ نے ان سے فرمایا کہ تم مجھ سے خدا کے متعلق جھگڑا کرتے ہو، جس نے مجھے توحید کا سیدھا راستہ بتایا اور میں تمہارے ان معبودوں سے ہرگز نہیں ڈرتا اور میں تمہارے ان جھوٹے خدائوں سے ڈر بھی کیسے سکتا ہوں جبکہ تم ان چیزوں کو خدا کا شریک ٹھہرانے سے نہیں ڈرتے جن کو حق سمجھنے کے لیے اللہ کی طرف سے تمہارے پاس کوئی دلیل نہیں ہے۔
جب وہاں کے بادشاہ نمرود کو پتہ چلا تو اس نے حضرت ابراہیم علیہ السلام کو دربار میں بلایا اور آپ سے جھگڑنے لگا۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے فرمایا کہ میرا خدا وہ ہے جو مارتا بھی ہے اور جلاتا بھی، نمرود نے کہا یہ کون سی بات ہے یہ و میں بھی کرتا ہوں، چنانچہ ایک ایسے قیدی کو بلا کر آزاد کردیا جس کو سزائے موت کا حکم ہوچکا تھا اور ایک بے گناہ آدمی کو پکڑ کر قتل کردیا۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے بے دھڑک ہو کر کہا کہ میرا راب ہر روز مشرق سے سورج طلوع کرتا ہے، میں دیکھو کل تو اس کو مغرب سے طلوع کردے، اس پر نمرود لاجواب ہوگیا اور حکم دیا کہ ابراہیم علیہ السلام کو زندہ جلادیا جائے چنانچہ ایک زبردس چتا تیار کی گئی تو نمرود نے حضرت ابراہیم علیہ السلام کو اس جلتی ہوئی آگ میں پھینکوادیا مگر وہ آگ خدا کے حکم سے ٹھنڈی ہوگئی اور آپ کو ہرگز گزند نہ پہنچاسکی۔
جب حضرت ہاجرہ کے بطن سے حضرت اسمعیل علیہ السلام پیدا ہوئے تو حضرت ابراہیم علیہ السلام اللہ کے حکم سے اپنی بیوی ہاجرہ اور لخت جگر حضرت اسمعیل کو ایک ایسی وادی میں چھوڑ آئے، جہاں دور دور تک آبادی کا نام و نشان تک نہ تھا، اس زمین میں نہ کہیں پانی تھا اور نہ کہیں کھیتی باڑی ہوسکتی تھی۔
حضرت ہاجرہ  خود پانی کی تلاش میں ادھر ادھر دوڑیں، لیکن پانی نہ ملا، خدا کی قدرت سے حضرت اسمعیل جہاں ایڑیاں رگڑ رہے تھے وہاں پانی کا چشمہ پیدا ہوگیا، یہی چشمہ آج کل زمزم کے نام سے مشہور ہے۔
جب حضرت اسمعیل علیہ السلام چلنے پھرنے کے قابل ہوئے تو اللہ نے حضرت ابراہیم علیہ السلام سے بیٹے کی قربانی طلب کی۔ چنانچہ آپ نے اللہ کا یہ حکم حضرت اسمعیل علیہ السلام کو سنایا، اس پر حضرت اسمعیل علیہ السلام نے کہا، اے والد محترم، اللہ نے آپ کو جو حکم دیا ہے اس کو ضرور پورا کریں، آپ انشاء اللہ مجھے اس امتحان میں ثابت قدم پائیں گے،شیطان نے حضرت اسمعیل علیہ السلام اور حضرت ابراہیم علیہ السلام کوورغلانے کی بہت کوشش کی، لیکن آپ نے اسے جھڑک دیا اور کنکریاں مار کر بھگادیا۔اب حضرت ابراہیم علیہ السلام نے حضرت اسمعیل علیہ السلام کے ہاتھ پائوں باندھ دئیے تاکہ تڑپیں نہیں اور اپنی آنکھوں پر پٹی باندھ لی کہ محبت پدری کہیں اس فرض کی ادائیگی آڑے نہ آئے اور اپنے بیٹے کے گلے پر چھری چلادی، اسی وقت غیب سے آواز آئی کہ، اے ابراہیم علیہ السلام، تو نے اپنے خواب کو سچا کردکھایا اور حقیقت میں یہ بہت بڑی قربانی ہے اور جب حضرت ابراہیم علیہ السلام نے آنکھوں پر پٹی کھولی تو حضرت اسمعیل کی  بجائے ایک دنبہ ذبح کیا ہوا پڑا تھا۔
جب حضرت اسمعیل علیہ السلام جوان ہوئے تو اللہ تعالیٰ کے حکم کے مطابق ان دونوں باپ بیٹوں نے از سر نو خانہ کعبہ تعمیر کیا اور دعا کی کہ اے اللہ اس شہر مکہ کو امن والا بنادے، مجھ کو اور میری اولاد کو بتوں کا پجاری نہ بنانا، اور حضرت ابراہیم علیہ السلام دعا فرمارہے تھے کہ اللہ میری نسل سے ایک ایسا نبی پیدا کر جو گمراہ لوگوں کو تیری آیتیں پڑھ کر سنایا کرے اور انہیں دانائی اور حکمت کی باتیں سکھائے۔ اسی خانہ کعبہ کی زیارت اور حج کے لیے ہر سال لاکھوں مسلمان مکہ معظمہ جاتے ہیں۔

حضرت لوط علیہ السلام

By http://iqbalhassan1.blogspot.com/




حضرت لوط علیہ السلام     
        

 
     حضرت ابراہیم علیہ السلام کے زمانے میں ایک بستی سدوم نامی میں اللہ تعالیٰ نے حضرت لوط علیہ السلام کو اپنا پیغمبر اور نبی بنا کر  بھیجا۔ حضرت لوط علیہ السلام کی قوم کے لوگوں کا محبوب مشغلہ چوری ڈاکہ تھا۔
حضرت لوط علیہ السلام نے اپنی قوم کو بار بار سمجھایا لیکن ان پر حضرت لوط علیہ السلام کی وعظ و نصیحت کا کوئی اثر نہ ہوا، بلکہ وہ الٹے ان کے خلاف ہوگئے اور مجبور کرنے لگے کہ اگر تم ایسے ہی نیک پاک ہو تو اس بستی سے نکل جائو۔حضرت لوط علیہ علیہ السلام نے اپنی قوم سے کہا، میں ڈرتا ہوں کہ تم پر خدا کا کوئی عذاب نہ آجائے۔ اس لیے بہتر یہی ہے کہ ان برے کاموں سے باز آجائو اور خدا کے نیک بندے بن جائو تاکہ اپنی دنیا اور عاقبت کو سنوار سکو اور یقین کرو، مجھے اللہ نے تمہاری طرف اپنا رسول بنا کر بھیجا ہے۔ میں تم سے کوئی معاوضہ اور اجر تو طلب نہیں کرا، میرا اجر تو میرے رب کے پاس ہے، لیکن ان پر حضرت لوط علیہ السلام کی وعظ و نصیحت کا کوئی اثر نہ ہوا، بلکہ الٹا ان کو تنگ کرنے لگے اور کہا کہ جس عذاب سے تو روز ہمیں ڈراتا ہے اگر تو سچا ہے تو ایک دن اس عذاب کو ہم پر لے آ۔
آخر خدا کا غضب جوش میں آگیا اور اللہ تعالیٰ نے اس بستی کو فنا کرنے کا پختہ تہیہ کرلیا، اللہ تعالیٰ نے عذاب کے لیے اپنے فرشتے بھیجے، یہ فرشتے سب سے پہلے حضرت ابراہیم علیہ السلام کے پاس آئے اور ان کو حضرت اسحاق کی پیدائش کی خوشخبری سنائی اور جب انہوں نے بتایا کہ ہم فرشتے ہیں اور فلاں بستی پر عذاب لانے کے لیے بھیجے گئے ہیں تو حضرت ابراہیم علیہ السلام چوں کہ نیک بندے تھے اور دنیا کی بھلائی چاہتے تھے اس لیے وہ فرشتوں سے جھگڑنے لگے کہ ایسا نہ کرو، اس بستی میں اللہ کا نبی لوط بھی رہتا ہے،فرشتوں نے کہا کہ سوائے لوط کی بیوی کے اس کے گھر والوں کو بچالیا جائے گا اور صبح تک اس بستی کا نشان تک نہ ہوگا، اس کے بعد فرشتے انسانوں کی شکل میں حضرت لوط علیہ السلام کے مکان پر آئے،فرشتوں نے حضرت لوط علیہ السلام کو بتایا کہ ہم اللہ کے بھیجئے ہوئے فرشتے یہں، تم کوئی اندیشہ نہ کرو، صبح تک اس بستی کا دنیا کے تختے پر نام و نشان تک باقی نہ ہوگا، تم اپنے گھر والوں کو لے کر رات کی تاریکی میں اس بستی سے نکل جائو، لیکن تمہاری بیوی اس عذاب سے نہیں بچ سکتی، چنانچہ رات کے آخری حصے میں حضرت لوط علیہ السلام اپنے گھر والوں کو لے کر اس بستی سے نکل گئے۔
اگلے دن یہ بستی کھنڈرات کا ایک ڈھیر تھی، اللہ تعالیٰ نے اس قوم پر پتھروں کی بارش کی اور زمین کو ان پر الٹ دیا اور اس طرح حضرت لوط علیہ السلام کی قوم خدا کے عذاب میں آخر ہمیشہ کے لیے دنیا سے نابود ہوگئی۔

حضرت یوسف علیہ السلام

By http://iqbalhassan1.blogspot.com/



حضرت یوسف علیہ السلام     
          


     حضرت یعقوب علیہ السلام کے کئی بیٹے تھے جن میں سے حضرت یوسف سب سے چھوٹے تھے، ایک تو حضرت یوسف بے انتہا حسین اور خوب صورت تھے، دوسرے چھوٹے ہونے کی وجہ سے باپ کو بہت ہی پارے تھے، یہی وجہ تھی کہ وہ حضرت یوسف علیہ السلام کو کسی وقت بھی اپنی نظروں سے اوجھل نہ ہونے دیتے تھے۔
حضرت یوسف ابھی بچے ہی تھے کہ انہوں نے خوب دیکھا کہ گیارہ ستارے اور چاند سورج مجھے سجدہ کررہے ہیں، یہ خواب سن کر حضرت یعقوب یوسف علیہ السلام سے اور بھی پیار کرنے لگے اور سختی سے منع کردیا کہ اپنے دوسرے سوتیلے بھائیوں کو یہ خواب نہ سنانا کہیں ایسا نہ ہو کہ وہ شیطان کے فریب میں آکر تیرے خلاف کوئی بری تدبیریں کرنے لگ جائیں۔
بھائیوں نے جب دیکھا کہ باپ کا پیار یوسف سے بہت بڑھ رہا ہے تو انہوں نے مل کر صلاح کی کہ یہ تو بہت بری بات ہے کہ باپ کی شفقت ہمارے مقابلے میں یوسف پر زیادہ ہے، اگر یوسف علیہ السلام کا خاتمہ کردیا جائے تو پھر یقیناً باپ ہم سے زیادہ محبت کرنے لگے ا۔
سب نے مل کر باپ سے درخواست کی کہ یوسف کو ہمارے ساتھ باہر کھیلنے کودنے کے لیے بھیجا جائے، ہم اس کے بھائی اور خیر خواہ ہی تو ہیں۔ ہم اس کی پوری پوری حفاظت کریں گے، حضرت یعقوب نے کہا مجھے اندیشہ ہے کہ تم اس کی حفاظت سے غافل ہوجائو اور کوئی بھیڑیا اس کو کھاجائے، انہوں نے مل کر جواب دیا ہم طاقتور ہیں، ایسا نہیں ہوسکتا۔
آخر باپ نے دل پر پتھر رکھ کر یوسف علیہ السلام کو بھائیوں کے ساتھ بھیج دیا، بھائیوں نے اسے باہر لے جا کر ایک اندھے کنوئیں میں پھینک دیا اور رات کو روتے ہوئے گھر واپس آگئے اور بات سے کہا کہ ہم آپ میں دوڑ لگا رہے تھے، یوسف سامان کے پاس بیٹھا ہوا تھا کہ ایک بھیڑیا آکر اسے کھاگیا اور ثبوت میں حضرت یوسف کا ایک خون آلود کرتا بھی باپ کے سامنے پیش کردیا، بوڑھے باپ کے لیے سوائے صبر و شکر کے چارہ ہی کیا تھا۔ حضرت یعوب خاموش ہوگئے اور ان کی ساری عمر بیٹے کے فراق میں روتے گزر گئی۔
جس اندھے کنوئیں میں حضرت یوسف علیہ السلام کو پھینکا گیا تھا، اس کے قریب ہی ایک قافلہ آکر اترا، ان میں سے جب ایک آدمی ڈول لے کر کنوئیں پر پانی پینے کے لیے ایا تو اس نے دیکھا کہ ایک حسین اور خوب صورت لڑکا کنوئیں میں پڑا ہوا ہے اس نے حضرت یوسف کا باہر نکال لیا، جب یہ قافلہ مصر پہنچا تو مصر کے بادشاہ نے حضرت یوسف علیہ السلام کو چند درہموں کے عوض خریدلیا اور اپنی بیوی زلیخا سے کہا کہ ممکن ہےاس سے ہمیں کوئی نفع پہنچے یا ہم اسے اپنا بیٹا بنالیں۔
حضرت یوسف علیہ السلام سے پہلے دوسرے قیدیوں کے علاوہ ایک شاہی باورچی اور ایک بادشاہ کا ساقی بھی قید خانے میں تھے، ان کے خلاف یہ الزام تھا کہ انہوں نے بادشاہ کو زہر دینے کی کوشش کی ہے۔ یہ اور دوسرے قیدی حضرت یوسف کے حسن و جمال اور اخلاق سے بہت متاثر ہوئے، اب آپ کا یہ کام تھا کہ سارا دن جیل کے قیدیوں کو دین حق کی تبلیغ کرتے رہتے۔
ایک دن یہ دونوں حضرت یوسف کے پاس آئے اور کہنے لگے کہ ہم نے عجیب خواب دیکھے ہیں۔ ساقی نے کہا کہ میں نے دیکھا کہ میں بادشاہ کو انگوری شراب پلا رہا ہوں، باورچی نے بیان کیا کہ میں نے دیکھا ہے کہ میرے سر پر روٹیاں ہیں اور پرندے ان کو نوچ نوچ کر کھا رہے ہیں، یہ خواب بیان کرنے کے بعد انہوں نے حضرت یوسف علیہ السلام سے ان کی تعبیر  پوچھ۔
حضرت یوسف علیہ السلام نے فرمایا کہ ساقی تو رہا ہو کر پھر بادشاہ کی ملازمت پر چلا جائے گا اور باورچی کو سولی پر چڑھایا جائے گا اور اس کی لاش کو جانور کھائیں گے آپ نے ساقی سے کہا کہ جب رہا ہو کروہ عزیز مصر کے دربار میں جائے تو میری بے گناہی کا یقین دلائے، حسب تعبیر باورچی کو سولی پر لٹکایا گیا اور ساقی رہا ہوگیا، مگر رہو ہونے کے بعد وہ اس وعدے کو بھول گیا جو اس نے حضرت یوسف علیہ السلام سے کیا تھا۔
حضرت یوسف علیہ السلام سالوں جیل میں ہے لیکن کسی کو ان کی رہائی کا خیال نہ آیا، اتفاق سے ایک دن عزیز مصر نے خواب دیکھا کہ سات دبلی پتلی گائیں، سات موٹی تازی گائیوں کو کھا رہی ہیں اور سات سبز اور سات سوکھی ہوئی بالیں دیکھی ہیں۔ بادشاہ نے تمام لوگوں سے اس خواب کی تعبیر پوچھی، مگر کوئی بھی صحیح جواب نہ دے سکا، اس موقع پر ساقی کو اپنا وعدہ یاد آیا، اس نے کہا جیل میں ایک شخص ہے جو خواب کی صحیح تعبیر بیان کرتا ہے، میں اس کے پاس جاتا ہوں۔
عزیز مصر کی اجازت لے کر وہ جیل میں حضرت یوسف علیہ السلام کی خدمت میں آیا اور بادشاہ کا خواب بیان کیا۔
حضرت یوسف علیہ السلام نے فرمایا کہ اس خواب کی تعبیر تو یہ ہے کہ سات سال تو تمہارے ملک میں خوشحالی رہے گی اور سات سال سخت قحط پڑے گا، پھر ایک سال خوشحالی کا آئے گا، بارش بکثرت ہوگی اور پھل بھی بکثرت پیدا ہوں گے۔
جب اس شخص نے یہ تمام واقعہ بادشاہ کو سنایا تو اس نے کہا کہ حضرت یوسف علیہ السلام کو یہاں لایاجائے۔ جب وہ شخص پھر حضرت یوسف علیہ السلام کے  پاس آیا تو آپ نے فرمایا کہ جا کر بادشاہ سے پوچھو کہ ان عورتوں کا کیا قصہ ہے، جنہوں نے اپنے ہاتھ کاٹ لیے تھے، بے شک میرا رب ان کے مکرو فریب سے خوب واقف ہے، بادشاہ نے ان عورتوں کو بلا کر پوچھا، تو انہوں نے  کہا، ہم نے یوسف علیہ السلام میں کوئی برائی نہیں دیکھی، یہ دیکھ کر زلیخا بولی کہ اب تو حق ظاہر ہوگیا ہے، کہنے لگے حقیقت میں میں نے ہی اسے ورغلایا تھا اور وہ بالکل سچا ہے، حضرت یوسف نے فرمایا کہ میں نے یہ کارروائی اس لیے کی ہے کہ عزیز کو معلوم ہوجائے کہ میں نے پوشیدہ طور پر اس کی کوئی خیانت نہیں کی کیوں کہ اللہ تعالیٰ خیانت کرنے والوں کے فریب کو راس نہیں لاتا۔
حضرت یوسف علیہ السلام کی بریت ظاہر ہوگئی تو بادشاہ مصر نے حکم دیا کہ حضرت یوسف علیہ السلام کو عزت کے ساتھ لایا جائے میں شاہی خدمت ان کے سپرد کردوں گا۔ حضرت یوسف علیہ السلام نے فرمایا کہ اگر تم قحط سے بچنا چاہتے ہو تو خزانے کے کنجیاں میرے حوالے کردو، کیوں کہ میں حساب میں ماہر ہوں، چنانچہ عزیز مصر نے آپ کو شاہی خاندان بنادیا۔
خوشحالی کے بعد قحط کا زمانہ آیا تو حضرت یوسف علیہ السلام نے نہایت میانہ روی سے جمع کیا ہوا غلہ عوام میں تقسیم کرنا شروع کردیا۔ قحط کا اثر کنعان تک جا پہنچا، چنانچہ حضرت یعقوب علیہ السلام نے بھی اپنے بیٹوں کو غلہ لانے کے لیے مصر بھیجا، مگر یوسف علیہ السلام کے بھائی بنیامین کو اپنے پاس ہی رکھا۔
جب حضرت یوسف علیہ السلام کے بھائی مصر میں پہنچے تو حضرت یوسف نے ان کو پہچان لیا مگر وہ حضرت یوسف علیہ السلام کو نہ پہچان سکے، حضرت یوسف علیہ السلام نے بھائیوں سے کہا کہ اگلی دفعہ آئو تو اپنے بھائی بن یامین کو بھی ساتھ لانا، تم کو بہت سا غلہ دیا جائے گا اور اگر تم اس کو نہ لائے تو تم کو اناج نہیں ملے گا۔
جب یہ لوگ کنعان میں پہنچے تو انہوں نے حضرت یعقوب علیہ السلام سے کہا کہ ابا جان اب ہمیں اس صورت میں غلہ مل سکتا ہے کہ بن یامین ہمارے ساتھ جائے، ہم اس کی پوری حفاظت کریں گے،حضرت یعقوب علیہ السلام نے کہا کہ مجھے اب تم پر اعتبار نہیں رہا، کیوں کہ اس سے پہلے تم اس کے بڑے بھائی یوسف کو بھی ایسے ہی وعدہ کرکے لے گئے تھے، اللہ ہی ہے جو اس کی حفاظت کرے۔
حضرت یعقوب نے کہا کہ جب تک تم بن یامین کی حفاظت کا عہد نہ کرو، میں اس کو تمہارے ساتھ نہیں بھیجوں گا، اس پر انہوں نے حلفیہ وعدہ کیا، اب باپ نے بیٹوں کو مشورہ دیا کہ وہ مصر میں ایک ہی دروازے سے داخل نہ ہوں، میں اللہ کے بھروسے پر بن یامین کو تمہارے سپرد کرتا ہوں۔
جب یہ سب بھائی مختلف دروازوں سے داخل ہوئے اور جس دروازے سے بن یامین داخل ہوئے، اس دروازے پر حضرت یوسف علیہ السلام کی ان سے ملاقات ہوگئی اور حضرت یوسف علیہ السلام نے انہیں بتایا کہ میں ہی تمہارا گم شدہ بھائی یوسف ہوں اور میں تمہیں اپنے پاس رکھنا چاہتا ہوں۔
چنانچہ جب بھائیوں نے غلہ باندھ لیا تو شور مچ گیا کہ غلہ ناپنے کا شاہی کٹورا گم ہوگیا ہے، ملازمین سرکار نے ان سب بھائیوں کو پکڑ لیا، سب کی تلاشی ہوئی، سب کے آخر میں جب بن یامین کے سامان کی تلاشی لی جارہی تھی تو اس سے وہ کٹورا مل گیا اور اس طرح سے بن یامین کو اپنے بھائی یوسف کے پاس رہنے کی صورت پیدا کردی، اس کے علاوہ اس کو روکنے کا کوئی قانون نہ تھا، اس پر حضرت یوسف علیہ السلام کے بھائی کہنے لگے کہ اس نے چوری کی ہے تو کوئی تعجب نہیں ہے اور اس کے بھائی یوسف نے بھی چوری کی تھی۔ حضرت یوسف علیہ السلام یہ سب باتیں سن رہے تھے، مگر خاموش رہے، حضرت یوسف علیہ السلام کی چوری کا یہ واقعہ ہے کہ آپ بچپن میں اپنی پھوپھی کے پاس رہا کرتے تھے، جب حضرت یعقوب علیہ السلام نے ان کو اپنے پاس بلانا چاہا تو پھوپھی نے ایک پٹکے کی چوری کا الزام لگا کر آپ کو اپنے پاس رکھنے پر مجبور کرلیا۔
یہ سب بھائی حیران ہوگئے کہ اب کیا کیا جائے، انہوں نے بہت منت کی کہ ہمارا باپ بوڑھا اور اندھا ہے وہ بیٹے کا غم برداشت نہ کرسکے گا، حضرت یوسف علیہ السلام نے اپنی قمیض ان کو دے دی اور کہا کہ اس کو اپنے باپ کے منہ پر ڈال دینا اور اگر ہوسکے تو ان کو اپنے ساتھ لے آنا۔ جب یہ بھائی گھر پہنچے تو انہوں نے حضرت یعقوب علیہ السلام کے چہرے پر حضرت یوسف علیہ السلام کا پیراہن ڈال دیا۔ خدا کی قدرت سے ان کی آنکھوں کی بینائی اسی وقت ٹھیک ہوگئی۔
اب یہ سب مصر میں حضرت یوسف علیہ السلام کے پاس آگئے، حضرت یوسف کے شان اور دبدبہ کو دیکھ کر ان کے گیارہ بھائی اور ان کے والدین آپ کے سامنے جھک گئے اور طرح وہ خواب پورا ہوا جس میں آپ نے دیکھا تھا کہ گیاراہ ستارے اور سورج چاند مجھے سجدہ کررہے ہیں اس طرح انہوں گم گشتہ یوسف مل گیا اور یہ خوشی خوشی مصر میں رہنے لگے۔


حضرت شعیب علیہ السلام

By http://iqbalhassan1.blogspot.com/




حضرت شعیب علیہ السلام     
    

     
     جب حضرت یوسف علیہ السلام کے والدین اور بھائی مصر میں آگئے تو عزیز مصر نے کہا، تمہیں اختیار ہے، جہاں چاہو انہیں آباد کرو، حضرت یوسف علیہ السلام نے یہی مناسب سمجھا کہ انہیں شہر میں آباد نہ کیا جائے، کیوں کہ شہری ماحول اکثر اچھا نہیں ہوتا، چنانچہ آپ نے عزیز مصر سے کہا کہ یہ لوگ دیہات کے رہنے والے ہیں اس لیے یہ شہروں میں خوش نہ رہ سکیں گے، ان کے لیے دیہی زندگی ہی مناسب ہوگی۔
چنانچہ آپ نے اپنے بھائیوں کو ایک سر سبز علاقے میں آباد کردیا، انہی میں سے حضرت شعیب علیہ السلام اللہ کے پیغمبر ہو کر دنیا میں تشریف لائے۔
جب حضرت شعیب علیہ السلام دنیا میں تشریف لائے تو چند ایک لوگ ہی نہیں ساری کی ساری قوم گناہوں اور بداعمالیوں میں گھری ہوئی تھی۔ یہ لوگ ایک خدا کو چھوڑ کر بتوں کی پوجا کیا کرتے تھے۔ خرید و فروخت میں پورا لینا اور کم تولنا ان کا عام پیشہ تھا۔ چوریاں کرتے اور ڈاکے ڈالتے۔ اس چیز نے انہیں مغرور اور متکبر بنارکھا تھا۔
آپ نے اپنی قوم کو مخاطب کرکے فرمایا کہ خدائے واحد کی پرستش کرو، اس کے علاوہ کوئی عبادت کے لائق نہیں۔ خرید و فروخت میں ناپ تول کور پورا رکھو اور لوگوں کے ساتھ معاملات کرتے وقت کھوٹ نہ ملایا کرو۔ ہوسکتا ہے کہ تم اپنی ان بداعمالیوں کے نتائج سے آگاہ نہ ہو، لیکن اب جب کہ خدا کا نبی تمہارے پاس آچکا ہے تو اب تم یہ نہیں کہہ سکتے کہ ہم کو کسی نے ہمارے برے اعمال سے نہیں روکا تھا۔
حضرت شعیب علیہ السلام بڑے فصیح و بلیغ مقرر تھے۔ آپ نے ہر طریق سے قوم کو سمجھانے کی کوشش کی۔ محبت سے راہ راست پر لانے کی کوشش کی۔ خدا کے عذاب سے ڈرایا، مگر ان لوگوں پر کوئی اثر نہ ہوا، بلکہ انہوں نے حضرت شعیب علیہ السلام کی مخالفت شروع کردی۔ چند ایک غریب اور کمزور لوگ جو حضرت شعیب علیہ السلام پر ایمان لے آئے تھے۔ ان سرکشوں نے ان کو ستانا شروع کردیا۔ راستوں میں بیٹھ کر ان لو لوٹ لیتے، زدوکوب کرتے اور دھمکاتے لیکن اس کے باوجود حضرت شعیب علیہ السلام خدا کی طرف سے جو پیغام لے کر آئے تھے لوگوں کو سناتے رہے۔
اس پر اس قوم کے سردار حضرت شعیب علیہ السلام کے پاس آئے اور آپ کو دھمکی دی کہ اگر تم اپنے اس وعظ و نصیحت سے باز نہ آئے تو ہم مجبور ہوں گے کہ آپ کو یہاں سے نکال دیں۔ حضرت شعیب علیہ السلام نے فرمایا، میں جو کچھ کہتا ہوں، تمہاری ہی بھلائی اور بہتری کے لیے کہتا ہوں اور مجھے اندیشہ ہے کہ اگر تم نے میرا کہنا نہ مانا تو تم پر خدا کا عذاب نہ نازل ہوجائے۔
آخر جب قوم کی نافرمانی حد سے بڑھ گئی اور انہوں نے حضرت شعیب علیہ السلام کے خدائی پیغام کو ٹھکرادیا تو اللہ تعالیٰ کا وعدہ پورا ہوا اور حضرت شعیب علیہ السلام کی قوم پر خدا کا عذاب نازل ہوگیا، یہ عذاب دو قسم کا تھا ایک خوف ناک کڑک نے زمین کو ہلادیا اور پھر زلزلے نے تمام عمارتوں کو مسمار کردیا، ابھی یہ زلزلے کی تباہ کاریاں جاری تھیں کہ آسمان سے آگ برسنے لگی اور دیکھتے دیکھتے یہ وسیع قطعہ زمین جھلسی ہوئی لاشوں کا قبرستان بن گیا اور یہ سرزمین ایسی معلوم ہوتی تھی کہ یہاں کوئی آباد ہی نہ تھا۔ صرف حضرت شعیب علیہ السلام اور ان کے چند ایک ساتھی اس عذاب سے بچے، جنہوں نے ہمیشہ اللہ کے عذاب سے پناہ مانگی تھی۔
کہتے ہیں مدین کی تباہی و بربادی کے بعد حضرت شعیب علیہ السلام حضر موت کے شہر سیلون کے قریب آکر ٹھہرے اور وہیں آپ نے وفات پائی۔

حضرت موسیٰ علیہ السلام

By http://iqbalhassan1.blogspot.com/




حضرت موسیٰ علیہ السلام     
          


     حضرت یعقوب علیہ السلام کی اولاد نبی اسرائیل کو مصر میں رہتے ہوئے کافی مدت گزر چکی تھی، چوں کہ باہر سے آئے ہوئے تھے، اس لیے مصری انہیں اچھی نظر سے نہیں دیکھتے تھے۔
اس زمانے میں مصر کا ہر بادشاہ فرعون کہلاتا تھا، حضرت یوسف علیہ السلام سولہویں فرعون کے زمانے میں مصر تشریف لائے اور جس زمانے کا ذکر ہم کرنے والے ہیں وہ انیسواں فرعون تھا۔ اس کا نام منفتاح بن ریمسس دوم تھا۔
فرعون نے ایک خواب دیکھا جس کی تعبیر یہ بتائی گئی کہ بنی اسرائیل کا ایک لڑکا تیری حکومت کے زوال کا باعث ہوگا اس پر فرعون نے حکم دیا کہ بنی اسرائیل میں جو لڑکا پیدا ہو اس قتل کردیا جائے۔
اسی زمانے میں حضرت موسی علیہ السلام عمران کے گھرمیں پیدا ہوائے۔ ماں باپ کو سخت پریشانی تھی اور وہ سمجھتے تھے اگر کسی کو پتا چل گیا تو اس بچے کی خیر نہیں۔ کچھ مدت تک تو ماں باپ نے اس خبر کو چھپایا، لیکن مارے پریشان کے ان کا حال برا ہورہا تھا۔ آخر خداوند کریم نے آپ کی والدہ کے دل میں یہ بات ڈال دی کہ اس معصوم بچے کو صندوق میں ڈال کر درائے نیل میںبہادو۔
حضرت موسیٰ علیہ السلام کی والدہ نے ایسا ہی کیا اور اپنی بڑی لڑکی کو بھیجا کہ وہ صندوق کے ساتھ ساتھ کنارے پر جائے اور دیکھے کہ خدا کس طرح اس کی حفاظت کرتا ہے۔
جب یہ صندوق تیرتا ہوا شاہی محل کے قریب پہنچا تو فرعون کے گھرانے کی عورتوں میں سے ایک اس کو دیکھ کر باہر نکلوالیا اور جب اس میں ایک خوب صورت بچے کو دیکھا تو خوش ہوئیں اور اس بچے کو محل میں لے گئیں۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام کی بہن بھی فرعون کی خادمائوں میں شامل ہوگئیں۔
فرعون کے کوئی اولاد نہ تھی۔ جب اس کی بیوی آسیہ نے ایک حسین و جمیل بچے کو دیکھا تو بہت خوش ہوئیں۔ اتنے میں فرعون بھی آگیا۔ اور اس کے قتل کا حکم دے دیا۔ فرعون کی بیوی نے منت سے کہا کہ اس معصوم کو قتل نہ کرو، کوئی بڑی بات نہیں اگر یہی بچہ میری اوعر تیری آنکھوں کا نور اور دل کا سرور بن جائے اور ہم اس کو اپنا بیٹا بنالیں اور اگر حقیقت میں یہی وہ بچہ ہے جو تیرے خواب کی تعبیر بننے والا ہے تو ہم اس کی ایسی تربیت کریں گے کہ ہمارے لیے نقصان رسان بننے کی بجائے مفید ہی ثابت ہو۔ اس طرح فرعون حضرت موسی علیہ السلام کے قتل کرنے سے باز رہا۔
حضرت موسیٰ علیہ السلام فرعون کے گھر میں پل کر جوان ہوئے۔ آپ بڑے خوب صورت اور طاقتور تھے۔
ایک دن آپ شہر سے باہر جارہے تھے کہ آپ نے دیکھا کہ ایک مصری ایک اسرائیلی کو بیگار میں لے کر تنگ کررہا ہے۔ جب حضرت موسیٰ علیہ السلام اس کے قریب سے گزرے تو اسرائیلی نے حضرت موسیٰ علیہ السلام سے فریاد کی، آپ نے مصری کو سختی اور جبر سے روکنے کی کوشش کی، لیکن مصری نہ مانا۔ اس پر حضرت موسیٰ علیہ السلام نے غصے میں آکر مصر کے ایک ایسا طمانچہ مارا کہ وہ وہیں ڈھیر ہوگیا۔ اس کی موت کا حضرت موسیٰ علیہ السلام کو بہت رنج ہوا۔ آپ کا ہرگز یہ ارادہ نہ تھا کہ اس کو جان سے مار دیا جائے۔ چنانچہ آپ نے خدا سے اس کی معافی مانگی اور اللہ تعالیٰ نے آپ کو معاف کردیا۔
اگلے ہی دن پھر آپ ایک طرف سے جارہے تھے کہ وہی اسرائیلی ایک قبطی سے جھگڑ رہا ہے۔ آج پھر اس نے حضرت موسیٰ علیہ السلام سے فریاد کی۔ آپ کو اگرچہ بہت ناگوار گزرا۔ مگر آپ نے ایک طرف تو اس قبطی کو روکا اور دوسری طرف اسرائیلی کو ڈانا کہ تو ہر وقت جھگڑا مول لے کر بلاوجہ فریاد کرتا رہتا ہے، جونہی حضرت موسیٰ علیہ السلام نے ان کو ہٹانے کے لیے ہاتھ اٹھایا تو اس نے سمجھا کہ مجھے مارنے لگے ہیں۔ وہ چلایا، موسیٰ کل تم نے ایک مصری کو مارا۔ اسی طرح آج مجھے بھی ہلاک کرنا چاہتا ہے۔
اب کیا تھا سارے شہر میں خبر مشہور ہوگئی کہ کل والے مصری کو حضرت موسیٰ علیہ السلام نے مارا تھا۔ فرعون نے ان کی گرفتاری کے احکام جاری کردئیے۔ اس وقت ایک آدمی فرعون کے دربار میں موجود تھا، جس کو حضرت موسیٰ علیہ السلام  سے انس تھا۔ اس نے فوراً حضرت موسیٰ علیہ السلام کو جا کر سارے واقعہ کی اطلاع دی اور مشورہ دیا کہ آپ فوراً یہاں سے نکل جائیں۔ چنانچہ حضرت موسیٰ علیہ السلام سے بے سرو سامان نکل کھڑے ہوئے اور منزلیں طے کرتے ہوئے مدین کے شہر جاپہنچے۔
آپ بھوک اور پیاس سے نڈھال ہورہے تھے، جب ایک کنوئیں پر پہنچے تو دیکھا کہ کنوئیں پر لوگوں کی بھیڑ لگی ہوئی ہے اور لوگ اپنے اپنے ریوڑوں کو پانی پلا رہے ہیں۔ سب سے پیچھے دو لڑکیاں اپنی بکریاں لیے کھڑی ہیں۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے ان لڑکیوں سے پوچھا کہ تم کیوں اپنی بکریوں کو پانی نہیں پلاتیں۔ انہوں نے کہا ہمارا باپ ضعیف ہے اور ہم کمزور عورتیں۔ یہاں جو طاقتور ہے وہ سب سے پہلے اپنے ریوڑ کو پانی پلاتا ہے۔
حضرت موسیٰ علیہ السلام بڑے وجیہ، خوش شکل اور جوان تھے۔ آپ بھیڑ کو چیرتے ہوئے آگے بڑھے اور اس چرسسے کو جس کو تین چار آدمی کھینچتے تھے۔ اکیلے ہی کھینچ کر پانی نکالا اور ان لڑکیوں کے ریوڑ کو پلادیا۔ وہ لڑکیاں تو چلی گئیں اور حضرت موسیٰ علیہ السلام ایک درخت کے نیچے لیٹ گئے۔
جب وہ لڑکیاں گھر پہنچیں تو ان کا بوڑھا باپ بہت حیران ہوا اور پوچھا کہ آج تم پہلے ہی کیوں آگئی ہو۔ انہوں نے کہا کہ ایک پردیسی نوجوان آگیا تھا جس نے ہماری بکریوں کو پہلے پانی پلادیا۔ بوڑھے باپ نے کہا کہ یہ احسان فراموشی ہوگی کہ ہم اپنے محسن کے ساتھ کوئی اچھا سلوک نہ کریں۔ جائو پردیسی نوجوان کو اپنے گھر بلالائو تاکہ ہم اس کی کچھ خدمت کرسکیں۔ چنانچہ ایک لڑکی گئی اور حضرت موسیٰ علیہ السلام کو ساتھ لے آئی۔ ان کے باپ نے حضرت موسیٰ علیہ السلام کو کھانا کھلایا اور اس طرف آنے کی وجہ پوچھی۔ آپ نے تمام واقعہ سنادیا۔
اس لڑکی نے جو آپ کو بلانے گئی تھی اپنے بزرگ باپ سے کہا کہ باوا جان بہتر ہوگا کہ اس نوجوان کو ملازم رکھ لیا جائے ملازم وہی اچھا ہوتا ہے جو ایماندار بھی ہو اور طاقتور بھی۔
یہ سن کر وہ بزرگ بہت خوش ہوئے اور حضرت موسیٰ علیہ السلام سے کہ کہ اگر تم آٹھ سال میری بکریاں چرائو تو اپنی یہ بیٹی تمہارے نکاح میں دے دوں گا اور اگر تم دو سال اور بکریاں چرائو تو یہی لڑکی کا حق مہر ہوگا۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے اس کو قبول کیا اور فرمایا یہ میری خوشی پر چھوڑ دئیے۔ ان دونوں میں سے جو مدت میں چاہوں اس کو پورا کردوں۔ چنانچہ مقررہ مدت تک بکریاں چرانے کے بعد حضرت موسیٰ علیہ السلام کی شادی ہوگئی۔
ایک دن حضرت موسیٰ علیہ السلام بکریاں چراتے ہوئے دور نکل گئے۔ آپ کی بیوی بھی آپ کے ہمراہ تھیں۔ رات ہوگئی اور آپ راستہ بھول گئے۔ رات بڑی سرد اور تاریک تھی۔ آپ کو آگ کی تلاش ہوئی۔ ادھر ادھر دیکھا۔ سامنے کوہ سینا پر چمکتا ہوا شعلہ نظر آیا۔ آپ نے اپنی بیوی سے کہا۔ تم یہیں ٹھہرو، میں وہاں سے آگ لے آئوں اور ہوسکتا ہے وہاں کوئی ایسا آدمی مل جائے، جو ہمیں سیدھا راستہ بتاسکے۔
آپ چلے جارہے تھے اور آگ دور ہوتی جارہی تھی۔ جب کچھ دور تک چلنے کے بعد بھی آگ سے دور رہے تو حضرت موسیٰ علیہ السلام خوف کھانے لگے اور قریب تھا کہ واپس ہوجائیں کہ آواز آئی۔
اسے موسیٰ علیہ السلام میں تیرا پروردگار ہوں۔ اپنا جوتا اتار دے۔ یہ طویٰ کی مقدس وادی ہے۔ میں نے تجھ کو رسالت کے لیے چن لیا ہے۔ پس جو کچھ حکم دوں اس کو غور سے سن۔ سچ ہے۔
خدا کی دین کا موسیٰ سے پوچھئے احوال
کہ آگ لینے کو جائیں پیغمبری مل  جائے
حضرت موسیٰ علیہ السلام یہ آواز سن کر چونکے اور اپنے جوتے اتار دئیے۔ خوشی اور مسرت سے حیران کھڑے تھے کہ آواز آئی۔
موسیٰ! تیرے داہنے ہاتھ میں کیا ہے۔
حضرت موسیٰ نے عرض کی کہ یہ میرا سونٹا ہے اس سے میں بکریوں کے لیے پتے جھاڑتا ہوں اور اس کی ٹیک لگا کر آرام کرتا ہوں۔
اللہ تعالیٰ کا حکم ہوا کہ اس لاٹھی کو زمین پر ڈال دو۔
جونہی حضرت موسیٰ علیہ السلام نے اپنی لاٹھی زمین پر پھینکی وہ ایک خوفناک اژدھا بن کر دوڑنے لگا۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام گھر کر بھاگنے ہی والے تھے کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا، موسیٰ خوف نہ کھائو، اس کو پکڑلو، ہم اس کو پھر اسی حالت میں لوٹا دیں گے۔ جب حضرت موسیٰ علیہ السلام نے اس اژدھا کو پکڑا تو وہ پھر لاٹھی تھی۔
اب اللہ تعالیٰ نے حکم دیا کہ اپنے ہاتھ کو گریبان کے اندر مس کرکے باہر نکالیے وہ روشن ہوجائے گا اور یہ ایک بیماری نہ ہوگی، بلکہ تیرے اللہ کی نشانیاں ہیں۔ ہماری ان نشانیوں کو لے کر فرعون کے پاس جائو اور اس کو او اس کی قوم کو سیدھا راستہ دکھائو۔ اس نے بہت سرکشی اور نافرمانی اختیار کررکھی ہے اور وہ بنی اسرائیلی پر انتہائی ظلم کررہا ہے، ان کو اس غلامی اور ذلت سے نجات دلائو۔
حضرت موسیٰ علیہ السلام اپنے بھائی کو ساتھ لے کر فرعون کے دربار گئے اور فرعون سے کہا کہ خدا نے مجھے اپنا پیغمبر اور رسول بنا کر تیرے پاس بھیجا ہے۔ ہم تم سے دو باتیں کہتے ہیں ایک تو خدا واحد پر ایمان لے آئو۔ دوسرے بنی اسرائیل پر ظلم و ستم سے باز آئو اور ان کو غلامی سے نجات دو۔
فرعون سے کافی باتیں ہوئیں۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے پیار و محبت سے فرعون کو سمجھانے کی بہت کوشش کی اور جب اس سے کوئی جواب نہ بن آیا تو درباریوں سے کہنے لگا کہ یہ کوئی پاگل معلوم ہوتا ہے اور کج بحشی کرنے لگا اور اپنے وزیر بامان سے کہنے لگا کہ ایک اونچی عمارت بنائو جس پر چڑھ کر میں موسیٰ کے خدا کو دیکھ سکوں اور میں تو اس کو جھوٹا سمجھتا ہوں۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے کہا کہ میں اپنی صداقت میں تیرے پاس ظاہر نشان لایا ہوں۔ فرعون نے کہا اگر تیرے پاس کوئی نشان ہے تو ہمیں بھی دکھا۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے اپنی لاٹھی کو زمین پر پھینک دیا اور وہ ایک خوفناک اژدھا بن گیا۔ پھر اپنا ہاتھ گریبان کے اندر لے گئے۔ جب نکالا تو وہ ایک رون ستارے کی طرح چمک رہا تھا۔
یہ دیکھ کر فرعون کے درباری چلا اٹھے کہ یہ تو کوئی بہت بڑا جادو گر ہے۔ چنانچہ یہ فیصلہ ہوا کہ اب تو موسیٰ علیہ السلام اور ہارون کو جانے دی جائے اور کچھ دن بعد اپنی سلطنت کے تمام بڑے بڑے جادوگروں کو اکٹھا کرکے حضرت موسیٰ علیہ السلام سے مقابلہ کرایا جائے۔
مقابلے سے پہلے حضرت موسیٰ علیہ السلام نے عوام کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا، اللہ پر جھوٹی تہمت نہ لگائو، ایسا نہ ہو کہ خدا کا عذاب تم کو دنیا سے نیست و نابود کردے۔ جادوگروں نے آگے بڑھ کر کہا کہ ان باتوں کو جانے دو۔ اب ذرا دو دو ہاتھ ہوجائیں۔ اب یہ بتائو کہ پہل تم کرو گے، یا ہم کریں۔ آپ نے دیکھا کہ اب پر کوئی بات اثر نہیں کرتی، تو آپ نے فرمایا کہ پہل تمہاری طرف سے ہونی چاہیے۔
اب ان جادوگروں نے اپنی رسیاں بان اور لاٹھیاں زمین پر ڈال دیں جو اژدھا بن کر زمین پر دوڑنے لگے۔ یہ دیکھ کر حضرت  موسیٰ علیہ السلام کچھ گھبراگئے ۔ مگر اسی وقت خدا کا حکم ہوا، موسیٰ خوف نہ کھائو، ہمارا وعدہ ہے تم غالب رہو گے، اپنی لاٹھی کو زمین پر ڈال دو۔
حضرت موسیٰ علیہ السلام نے فوراً اپنا عصا زمین پر پھینک دیا اور وہ ایک خوفناک اژدھا بن گیا۔ جس نے تمام جادو کے زور سے بنے ہوئے نمائشی سانپوں کو نگل لیا۔ جادوگر یہ دیکھ کر سخت حیران ہوئے اور پکار اٹھے کہ موسیٰ علیہ السلام کا یہ عمل جادو نہیں بلکہ خدا کا معجزہ ہے اور فوراً سجدہ میں گر پڑے اور اعلان کیا کہ ہم موسیٰ علیہ السلام اور ہارون کے خدا پر ایمان لے آئے ہیں۔
جادوگروں نے کہا کہ اب سچائی ہمارے سامنے آگئی ہے تو جو کچھ کرنا چاہتا ہے کر گزر، ہم ایک خدا پر ایمان لاچکے ہیں۔ وہ ہماری خطائیں بخش دے۔
یہ دیکھ کر اسرائیلی نوجوانوں کی ایک جماعت بھی حضرت موسیٰ علیہ السلام پر ایمان لے آئی۔ لیکن وہ بھی فرعون کے قہر و غضب سے ڈرتے تھے اس لیے کھل کر اعلان نہ کرسکے۔
حضرت موسیٰ علیہ السلام نے کہا کہ اگر تم واقعی اللہ تعالیٰ پر ایمان لے آئے ہو اور اس کے فرمانبردار بننا چاہتے ہو تو فرعون سے ہرگز نہ ڈرو اور اللہ پر ہی اپنا بھروسہ رکھو۔ اس کے جواب میں انہوں نے کہا کہ ہم اللہ پر ہی بھروسہ کرتے ہیں۔
جب حضرت موسیٰ علیہ السلام کو فرعون اور اس کے درباریوں کے منصوبوں کا علم ہوا تو آپ نے بنی اسرائیل کے لوگوں نے کہا۔ موسیٰ، ہم تو پہلے ہی مصیبتوں میں پھنسے ہوئے تھے، تیرے آنے سے کچھ امید بندھی تھی، مگر تیرے آنے کے بعد تو اور بھی مصیبت آگئی ہے۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے اس کو تسلی دی اور کہا کہ گھبرائو نہیں۔ اللہ کا وعدہ سچا ہے تم ضرور کامیاب رہو گے اور تمہارا دشمن ہلاک ہوگا۔
اب فرعون اور اس کے درباریوں میں حضرت موسیٰ علیہ السلام کے قتل کے مشورے ہونے لگے، ان میں ایک مرد مومن بھی تھا جو اپنے ایمان کو چھپائے ہوئے تھا، اس نے کہا تم ایک ایسے شخص کو مارنا چاہتے ہو جو سچی بات کہتا ہے اور تمہارے پاس اپنی سچائی میں بہترین نشانیاں لایا ہے، اگر وہ جھوٹا ہے تو تم کو اس سے کچھ نقصان نہیں پہنچے گا اور اگر وہ سچا ہے تو پھر اس کے وعدوں سے ڈرو جو وہ خدا کی جانب سے سناتا ہے۔ لیکن فرعون اور اس کے سرداروں پر کوئی اثر نہ ہوا، بلکہ انہوں نے کہا کہ موسیٰ علیہ السلام سے پہلے اس سے نپٹ لینا چاہیے۔
آخر جب مصریوں کو سرکشی اور نافرمانی حد کو پہنچ گئی تو حضرت موسیٰ علیہ السلام نے خدا کے حکم سے فرعون کو مطلع کردیا کہ تم پر عذاب الہٰی نازل ہونے والا ہے، اب یہ صورت ہوئی کہ جب عذاب کی صورت پیدا ہوتی تو وہ حضرت موسیٰ علیہ السلام سے کہتے کہ اگر یہ عذاب ٹل جائے تو ہم تمہارے خدا پر ایمان لے آئیں گے اور پھر عذاب ٹل جاتا۔ اس طرح کئی بار ہوا لیکن جب عذاب رفع ہوجاتا تو یہ لوگ پھر منکر ہوجاتے۔
اب اللہ نے حضرت موسیٰ علیہ السلام کو حکم دیا کہ اپنی قوم نبی اسرائیلی کو مصر سے نکال کر باپ دادا کی سرزمین پر لے جائو، چنانچہ آپ رات کے وقت نبی اسرائیل کو لے کر نکل گئے۔ ادھر فرعون کو بھی اطلاع مل گئی، اس نے ایک زبردست فوج کے ساتھ ان کا تعاقب کیا۔ وہ پانی کے کنارے پر پہنے تھے کہ مصری فوجیں آگئیں۔ جنہیں دیکھ کر بنی اسرائیل بہت گھبرائے۔ مگر حضرت موسیٰ علیہ السلام نے ان کو تسلی دی کہ گھبرائو نہیں اللہ کا وعدہ سچا ہوتا ہے۔
اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ علیہ السلام کو حکم دیا کہ اپنی لاٹھی پانی پر مارو، چنانچہ جب حضرت موسیٰ علیہ السلام نے بحیرہ قلزم کے پانی پر اپنی لاٹھی ماری تو اس میں سے راستہ بن گیا اور حضرت موسیٰ علیہ السلام بڑے آرام سے بحیرہ قلزم سے پار ہوگئے۔ یہ دیکھ کر فرعون نے اپنی فوج کو حکم دیا کہ تم بھی اس راستے سے بحیرہ قلزم کو پار کرجائو۔ لیکن جب فرعون اور اس کی ساری فوج درمیان میں آگئی تو اللہ کے حکم سے پانی پھر اپنی اصلی حالت پر آگیا اور فرعون اپنی فوج سمیت غرق ہوگیا۔ جب فرعون غرق ہونے لگا تو اس نے پکارا کہ میں موسیٰ کے خدا کے اوپر ایمان لاتا ہوں، لیکن یہ بعد از وقت تھا اور مصری ایسے کئی وعدے پہلے کرچکے تھے۔ فرعون کی پکار پر اللہ نے فرمایا کہ "آج کے دن ہم تیرے جسم کو ان لوگوں کے لیے جو تیرے پیچھے آنے والے ہیں نجات دیں گے کہ وہ عبرت کا نشان بنے"۔ چنانچہ ہزارو سالوں کے بعد اس کی لاش دستیاب ہوئی ہے اور اب مصر کے عجائب خانہ میں موجود ہے۔

حضرت دائود علیہ السلام

By http://iqbalhassan1.blogspot.com/




حضرت دائود علیہ السلام     
          



     خدا وند کریم کے حکم کے مطابق حضرت موسیٰ علیہ السلام کے جانشین حضرت موسیٰ علیہ السلام کے جانشین حضرت یوشع علیہ السلام اپنی قوم بنی اسرائیل کو لے فلسطین میں داخل ہوگئے۔ اللہ تعالیٰ نے ان کو حکم دے رکھا تھا کہ جب وہ شہر میں فاتحانہ داخل ہوں تو مغرور اور متکبر انسانوں کی طرح داخل نہ ہوں بلکہ خدا کا شکر اور توبہ استغفار کرتے ہوئے داخل ہوں لیکن لوگوں نے اس حکم کی پروا نہ کی اور اکڑ اکڑ کر شہر میں داخل ہوئے۔ اس نافرمانی سے ان پر اللہ کا عذاب نازل ہوا اور وہ پھر محکوم و مقہور ہوگئے۔
اس کے بعد بنی اسرائیل میں بہت سے نبی آئے، جن میں حضرت الیاس اور حضرت الیسع کے نام قابل ذکر ہے، لیکن حضرت موسیٰ علیہ السلام کی وفات کے کوئی ساڑھے تین سو سال تک ان میں کوئی بادشاہ نہ ہوا اور نہ وہ کسی کو حکمران بنانے کو تیار تھے، اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ یہ دوسری ہمسایہ قوموں سے ہمیشہ پٹتے رہے، اس زمانے میں ایک بادشاہ جالوت نے بنی اسرائیل کی تمام بستیوں پر قبضہ کرلیا، یہ بڑا ظالم اور جابر بادشاہ تھا، اس نے بنی اسرائیل پر بے پناہ مظالم توڑے۔
اسوقت بنی اسرائیل میں حضرت شموئیل علیہ السلام کے حافظ تھے اور اللہ نے ان کونبی بھی بنایا تھا چنانچہ قوم نے ان سے درخواست کی کہ ان پر کوئی بادشاہ بنایا جائے، جس کی سرداری میں ہم ظالموں کا مقابلہ کرسکیں، اس پر آپ نے فرمایا۔ مجھے ڈر ہے کہ اگر تم پر کوئی بادشاہ مقرر کیا جائے اور وہ تم کو جہاد کا حکم دے تو تم جہاد سے انکار کردو۔ بنی اسرائیلیوں نے کہا کہ ہم اس ذلت سے اب بہت تنگ آگئے ہیں، انہوں نے ہماری اولاد کو قید کردیا۔ ہمیں گھر سے بے گھر کیا۔ یہ کبھی نہیں ہوسکتا کہ ہم جہاد سے انکار کردیں۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ کے حکم کے مطابق حضرت شموئیل نے طالوت کو ان کا بادشاہ مقرر کردیا۔ کیوں کہ وہ بہادر بھی تھے اور اہل علم بھی، لیکن جن بنی اسرائیل نے سنا تو وہ اس پر ناک بھوں چڑھانے لگے اور کہنے لگے وہ تو بہت ہی غریب ہے، وہ کس طرح ہمارا بادشاہ ہوسکتا ہے۔
حضرت شموئیل علیہ السلام نے فرمایا۔ میں پہلے ہی جانتا تھا کہ تم بزدل اور پست ہمت ہو اور اسی لیے تم یہ حیلے بہانے تراش رہے ہو۔ اس پر انہوں نے کہا کہ اگر طالوت کا تقرر خدا کی طرف سے ہے تو اس کے لیے خدا کا کوئی نشان دکھائو۔ حضرت شموئیل نے فرمایا کہ تابوت سکینہ جو تم سے چھن گیا ہے، جس میں تورات اور حضرت موسیٰ علیہ السلام اور ہارون علیہ السلام کے تبرکات تھے، وہ طالوت علیہ السلام کی بدولت تمہارے پاس آجائے گا، چنانچہ اللہ کے حکم سے فرشتے تابوت سکینہ طالوت کے پاس لے آئے۔ اب طالوت نے جالوت کے خلاف اعلان جنگ کردیا۔
جالوت خود بھی ایک قوی ہیکل انسان تھا اور اس کے پاس بہت بڑی فوج تھی۔ مجاہدین خدا سے فتح و نصر کی دعائیں کررہے تھے، میدان جنگ میں پہنچ کر جالوت نے بنی اسرائیل میں سے کسی کو مقابلے کے لیے طلب کیا۔ بنی اسرائیل میں سے حضرت دائود جو لڑائی کی غرض سے نہیں آئے تھے اور ان کی عمر بھی ابھی چھوٹی تھی، جالوت کے مقابلے کے لیے نکلے اور آتے ہی جالوت کا کام تمام کردیا۔ بادشاہ کی موت نے مخالف فوج کے حوصلے پست کردئیے وہ بھاگ گئے اور بنی اسرائیل میں بہت ہر دلعزیز ہو گئے اور بعد میں خدا کے برگزیدہ پیغمبر اور بنی اسرائیل کے بادشاہ بنے چوں کہ آپ رسول بھی تھے اور بادشاہ بھی۔ اس لیے اللہ نے آپ کو قرآن حکیم میں خلیفہ یعنی نائب کے لقب سے یاد کیا ہے اور خداوند کریم نے اپنی صفات بیان کرتے ہوئے فرمایا ہے کہ ہم نے اس کی حکومت کو مضبوط کیا ہے، نبوت عطا کی اور صحیح فیصلہ کی قوت بخشی۔
اس کے علاوہ اللہ تعالیٰ نے حضرت دائود علیہ السلام کو یہ معجزہ عطا فرمایا کہ لوہا ان کے ہاتھ میں نرم ہوجاتا تھا، اگرچہ آپ بادشاہ تھے، مگر شاہی خزانے سے ایک پیسہ تک اپنے لیے نہ لیتے تھے، بلکہ زرہیں بنا کر فروخت کیا کرتے تھے اور اس طرح حلال کی کمائی کرکے کھاتے تھے کیوں کہ نبی جو بھی خلق خدا کی خدمت  کرتے ہیں وہ کسی معاوضے اور بدلے کے لیے نہیں کرتے۔ ان کا اجر تو ان کے خدا کے پاس ہوتا ہے۔ حضرت دائود علیہ السلام کی زرہیں لڑائی میں بہت مفید ثابت ہوئیں۔ اس لیے جنگجو انہیں شوق سے خریدتے تھے، نیز آپ پرندوں کی بولیوں کو بھی سمجھتے تھے اور یہ علم اللہ تعالیٰ نے آپ کے فرزندحضرت سلیمان علیہ السلام کو بھی عطا کیا۔ چوتھا معجزہ آپ کا یہ تھا کہ جب آپ گھوڑے کی زین کسنا شروع کرتے تو اس سے فارغ ہونے تک ساری زبور کی تلاوت کرلیا کرتے تھے۔
کہتے ہیں حضرت دائود علیہ السلام نے سوسال کی عمر میں وفات پائی اور شہر صعیون میں دفن ہوئے۔

حضرت سلیمان علیہ السلام

By http://iqbalhassan1.blogspot.com/




حضرت سلیمان علیہ السلام     
        



 
     حضرت دائود علیہ السلام کی طرح اللہ تعالیٰ نے حضرت سلیمان علیہ السلام کو بھی بہت سے معجزے عطا کررکھے تھے۔ آپ جانوروں کی بولیاں سمجھ لیتے تھے، ہوا پر آپ کا قابو تھا۔ آپ کا تخت ہوا میں اڑا کرتا تھا۔ یعنی صبح اور شام مختلف سمتوں کو ایک ایک ماہ کا فاظہ طے کرلیا کرتے تھے، حضرت سلیمان علیہ السلام کی سب سے بڑی خصوصیت یہ تھی کہ آپ کی حکومت صرف انسانوں پر ہی نہ تھی، بلکہ جن بھی آپ کے تابع تھے۔
حضرت سلیمان علیہ السلام نے مسجد اقصی اور بیت المقدس کی تعمیر شروع کی جن دور دور سے پتھر اور سمندر سے موتی نکال نکال کر لایا کرتے تھے۔ یہ عمارتیں آج تک موجود ہیں۔ اس کے علاوہ آپ نے جنوں سے اور بھی بہت سے کام لیے۔
ایک موقعہ پر اللہ تعالیٰ نے حضرت سلیمان علیہ السلام کو آزمائش میں ڈال دیا۔ آپ کے پاس ایک انگوٹھی تھی، جس پر اسم اعظم کندہ تھا، اس انگوٹھی کی بدولت آپ جن وانس پر حکومت کیا کرتے تھے۔ لیکن وہ انگوٹھی کسی وجہ سے گم ہوگئی اور شیطان کے ہاتھ آگئی۔ چنانچہ آپ تخت و سلطنت سے محروم ہوگئے، ایک مدت کے بعد وہ انگوٹھی شیطان کے ہاتھ سے دریا میں گرپڑی، جسے ایک مچھلی نے نگل لیا، وہ مچھلی حضرت سلیمان علیہ السلام نے پکڑ لی، جب اس کو چیرا گیا تو انگوٹھی اس کے پیٹ سے مل گئی اور اسی طرح آپ کو دوبارہ سلطنت اور حکومت مل گئی۔
حضرت سلیمان علیہ السلام کے زمانے میں یمن کے علاقے پر ملکہ سبا کی حکومت تھی، ایک دن حضرت سلیمان علیہ السلام کا دربار لگا ہوا تھا، جس میں تمام جن وانس، چرند، پرند اپنی اپنی جگہوں پر بیٹے ہوئے تھے، دیکھا کہ ہد ہد غیر حاضر ہے آپ نے فرمایا ہد ہد نظر نہیں آتا اگر اس نے اس غیر حاضری کی معقول وجہ بیان نہ کی تو اسے سخت سزا دی جائے گی، ابھی یہ باتیں ہورہی تھیں کہ ہد ہد بھی حاضر ہوگیا، حضرت سلیمان علیہ السلام کے دریافت کرنے پر ہد ہد نے بتایا کہ میں اڑتا ہوا یمن کے ملک میں جا پہنچا تھا، جہاں کی حکومت ملکہ سبا کے ہاتھ میں ہے۔ خدا نے سب کچھ دے رکھا ہے اس کا تخت بہت قیمتی اور شاندار ہے لیکن شیطان نے اس کو گمراہ کررکھا ہے، وہ خدائے واحد کی بجائے آفتاب کی پرستش کرتی ہے۔
حضرت سلیمان علیہ السلام نے فرمایا کہ اچھا تو میرا خطا اس کے پاس لے جا، تیرے جھوٹ اور سچ کا امتحان ابھی ہوجائے گا چنانچہ ہد ہد آپ کا خط لے کر ملکہ سبا کے پاس پہنچا اور خط اس کے آگے ڈال دیا، ملکہ نے خط پڑھ کر درباریوں کو بلایا اور خط کا مضمون پڑھ کر سنایا، جس میں درج تھا۔
یہ خط سلیمان علیہ السلام کی طرف سے ہے اور اللہ کے نام سے شروع کیا جاتا ہے جو بڑا مہربان اور رحم والا ہے تم کو سرکشی اور سربلندی کا اظہار نہیں کرنا چاہیے اور تم میرے پاس خدا کی فرماں بردار بن کر آئو۔
ملکہ سبا نے بہت سے تحفے تحائف حضرت سلیمان علیہ السلام کی خدمت میں بھیجے۔ آپ نے ان تحائف کو دیکھ کر فرمایا، کہ ملکہ نے میرے پیغام کا مقصد نہیں سمجھا۔ آپ نے ملکی کے سفیروں کو دیکھ کر فرمایا۔ تم نہیں دیکھتے کہ میرے پاس کس چیز کی کمی ہے، یہ تحفے واپس لے جائو اور اپنی ملکہ سے کہو کہ اگر میرے پیغام کی تعمیل نہ کی تو میں عظیم الشاں لشکر لے کر وہاں پہنچوں گا اور تم کو رسوا اور ذلیل کرکے تمہارے شہر سے نکال دوں گا۔
جب قاصد حضرت سلیمان علیہ السلام کا پیغام لے کر ملکہ کے پاس گئے تو اس نے یہی مناسب سمجھا کہ خود حضرت سلیمان علیہ السلام کی خدمت میں حاضر ہوجائے۔ جب حضرت سلیمان علیہ السلام کو ملکہ کی روانگی کا علم ہوا تو آپ نے فرمایا کہ دربار والوں میں کوئی ایسا ہے جو ملکہ کا تخت یہاں لے آئے۔ ایک جن نے کہا کہ آپ کے دربار برخاست ہونے تک میں تخت لاسکتا ہوں اور میں امین بھی ہوں۔ آپ کے وزیر نے کہا کہ میں آنکھ جھپکتے تک اس کا تخت پیش کرسکتا ہوں۔
اور جونہی حضرت سلیمان علیہ السلام نے مڑ کر دیکھا تو ملکہ کا تخت وہاں موجود تھا۔ اس پر حضرت سلیمان علیہ السلام نے خداوند تعالیٰ کا شکر ادا کیا اور فرمایا کہ خدا کا یہ فضل میری آزمائش کے لیے ہے تاکہ وہ دیکھے کہ اس حالت میں بھی اس کا شکر ادا کرتا ہوں یا نہیں۔ اب آپ نے حکم دیا کہ اس کی شکل بدی دی جائے جب ملکہ حضرت سلیمان علیہ السلام کے دربار میں پہنچی تو اس سے پوچھا گیا، کیا تیرا تخت بھی ایسا ہی ہے جیسا یہ ہے،اس نے کہا یہ تو وہی ہے۔
ملکہ سبا نے حضرت سلیمان علیہ السلام کے پیغمبرانہ جاہ و جلال کو دیکھ کر اسلام قبول کرلیا۔
حضرت سلیمان علیہ السلام کی وفات کا واقعہ بڑا دلچسپ ہے۔ حضرت سلیمان علیہ السلام کے حکم سے جنوں کی ایک جماعت بڑی بڑی عمارتیں بنانے میں مصروف تھی کہ حضرت سلیمان علیہ السلام کی وفات کا وقت آن پہنچا، آپ ایک لاٹھی کے سہارے کھڑے ہو گئے اور انتقال فرماگئے۔ جنوں کو آپ کی موت کی خبر نہ ہوئی اور وہ اپنے کام میں لگے رہے۔ آخر ایک عرصہ کے بعد جب ان کی لاٹھی کو دیمک نے چاٹ لیا تو وہ بودی ہو کرگر پڑے اور حضرت سلیمان علیہ السلام جو لاٹھی کے سہارے کھڑے تھے وہ بھی گر پڑے۔ اس وقت جنوں کو معلوم ہوا کہ حضرت سلیمان علیہ السلام تو مدت سے انتقال کرچکے ہیں۔

Taleemi Markaz Forum,design by iqbal hassan

By http://iqbalhassan1.blogspot.com/


Apna Taleemi Forum,design by iqbal hassan

By http://iqbalhassan1.blogspot.com/


ALTRAVISTA-HEADER - design by iqbal hassan

By http://iqbalhassan1.blogspot.com/


Achi-Dosti-Ramzaan--Bunner ,design by iqbal hassan

By http://iqbalhassan1.blogspot.com/


Achi-Dosti-Ramzaan--Bunner ,design by iqbal hassan

By http://iqbalhassan1.blogspot.com/


Achi-Dosti-Ramzaan--Bunner ,design by iqbal hassan

By http://iqbalhassan1.blogspot.com/


Achi Dosti Forum Eid Banner

By http://iqbalhassan1.blogspot.com/


Achi Dosti Forum Banner

By http://iqbalhassan1.blogspot.com/


iqbal poetry 16

By http://iqbalhassan1.blogspot.com/


iqbal poetry 15

By http://iqbalhassan1.blogspot.com/


iqbal poetry 14

By http://iqbalhassan1.blogspot.com/


iqbal poetry 13

By http://iqbalhassan1.blogspot.com/


iqbal poetry 12

By http://iqbalhassan1.blogspot.com/


iqbal poetry 11

By http://iqbalhassan1.blogspot.com/


iqbal poetry 10

By http://iqbalhassan1.blogspot.com/


iqbal poetry 09

By http://iqbalhassan1.blogspot.com/


iqbal poetry 08

By http://iqbalhassan1.blogspot.com/


iqbal poetry 07

By http://iqbalhassan1.blogspot.com/


Thursday, May 10, 2018

iqbal poetry 06

By http://iqbalhassan1.blogspot.com/


iqbal poetry 05

By http://iqbalhassan1.blogspot.com/


iqbal poetry 04

By http://iqbalhassan1.blogspot.com/


iqbal poetry 03

By http://iqbalhassan1.blogspot.com/


Tuesday, May 8, 2018

Art of Taj Mahal in Corel Draw

By http://iqbalhassan1.blogspot.com/


best design with use blend tool in coreldraw x7

By http://iqbalhassan1.blogspot.com/


Photo No 02

By http://iqbalhassan1.blogspot.com/


Phot No 01

By http://iqbalhassan1.blogspot.com/


Achidosti New Year Banner

By http://iqbalhassan1.blogspot.com/


Achi Dosti Forum Banner

By http://iqbalhassan1.blogspot.com/


حضرت یونس علیہ السلام

By http://iqbalhassan1.blogspot.com/



    حضرت یونس علیہ السلام




حضرت یونس علیہ السلام اٹھائیس سال کے ہوئے تو اللہ تعالیٰ نے آپ کو نبوت کے منصب سے سرفراز کرکے نینوا کے لوگوں کی ہدایت کے لیے مقرر کیا۔ ایک مدت تک وہاں کے لوگوں کو نیکی اور پاکیزگی کی تلقین کرتے رہے۔ آپ نے ان کو بتوں کی پوجا چھوڑ کر ایک خدا کی پرستش کرنے کے لیے کہا، مگر وہ بڑے ہی نافرمان اور سرکش تھے،ایک مدت تک جب آپ کی تبلیغکا کوئی اثر نہ ہوا تو آپ بہت دل برداشتہ ہوگئے اور غصے میں آکر بارگاہ الہٰی میں ان کے لیے عذاب کی دعا کی اور بغیر خدا کا حکم سنے خود اس بستی سے نکل گئے۔
جب آپ نینوا سے چل کر دریائے فرات کے کنارے پر پہنچے تو دیکھا کہ ایک کشتی مسافروں سے بھری ہوئی پار جانے کے لیے تیار ہے۔ آپ بھی اس کشتی میں سوار ہوگئے۔ جب کشتی منجھدار میں پہنچی تو طوفانی ہوائوں نے کشتی کو گھیر لیا اور ڈگمگانے لگی، جب کشتی والوں کو اپنی غرقابی کا یقین ہوگیا تو انہوں نے اپنی رسم اور عقیدے کے مطابق کہا کہ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ کوئی بھاگا ہوا غلام اس کشتی میں سوار ہے جب تک اس کو کشتی سے علیحدہ نہیں کیا جائے گا، نجات نہیں ملے گی۔
جب حضرت یونس علیہ السلام نے یہ گفتگو سنی تو فوراً دل میں خیال آیا کہ میں ہی اپنے آقا کا وہ غلام ہوں جو وحی کا انتظار کیے بغیر نینوا سے چلا آیا، خدا کو میرا اس طرح چلا آنا پسند نہیں آیا۔ اب میری آزمائش کا وقت آن پہنچا ہے۔ آپ نے کشتی والوں سے کہا میں ہی اپنے آقا کا بھاگا ہوا غلام ہوں۔ لہٰذا مجھے دریا میں پھینک دو۔ آخر یہ طے ہوا کہ قرعہ اندازی کی جائے جس کا نام نکلے اس کو دریا میں پھینکا جائے۔ چنانچہ تین مرتبہ قرعہ اندازی ہوئی اور تینوں مرتبہ حضرت یونس علیہ السلام کا نام نکلا۔ اب وہ مجبور ہوگئے اور انہوں نے حضرت یونس علیہ السلام کو دریا میں پھینک دیا۔ اسی وقت خدا کے حکم سے ایک مچھلی سے آپ کو نگل لیا۔ خدا نے مچھلی کو حکم دیا کہ یونس تیرے پاس امانت ہے، تیری غذا نہیں ہے، ان کو کوئی تکلیف نہ ہو۔
مچھلی کے پیٹ میں پہنچ کر حضرت یونس علیہ السلام نے محسوس کیا کہ میں زندہ ہوں تو بارگاہ خداوندی میں اپنی ندامت کا اظہار کیا کہ کیوں خدا کے حکم کا انتظار نہ کیا اور ناراض ہو کر نینوا سے نکل آئے اور عرض کی، خدایا۔ تیرے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں ہے، میں تیری پاکی بیان کرتا ہوں اور بلاشک میں نے خود ہی اپنے نفس پر ظلم کیا ہے۔
اللہ تعالیٰ نے حضرت یونس علیہ السلام کی توبہ قبول کی اور مچھلی کو حکم دیا کہ ان کو کنارے پر اگل دے۔لیکن مچھلی کے پیٹ میں رہنے سے آپ بہت لاغر اور کمزور ہوگئے تھے، خدا کے حکم سے وہاں ایک بیلدار درخت اگ آیا اور آپ وہاں جھونپڑی بنا کر رہنے لگے۔ کچھ مدت کے بعد اس درخت کی جڑ کو کیڑا لگ گیا جس سے وہ بیل سوکھنے لگی، یہ دیکھ کر حضرت یونس علیہ السلام کو بہت رنج ہوا۔ اس پر اللہ تعالیٰ کی طرف سے وحی نازل ہوئی۔
یونس۔ تم کو اس حقیر سی بیل کے مرجھا جانے کا تو بہت رنج پہنچا ہے مگر نے یہ نہ سوچا کہ نینوا کی ایک لاکھ سے زائد آبادی اور دوسرے جانداروں کو ہلاک کردینا ہم کو ناگوار نہ ہوگا اور کیا ہم ان کے لیے اس سے زیادہ مہربان نہیں ہیں۔ جتنی یہ بیل تم کو عزیز ہے۔
تم بددعا کرتے ہی اس بستی سے نکل آئے اور وحی کا انتظار بھی نہ کیا۔ ایک نبی کے لیے یہ ہرگز مناسب نہیں ہے کہ وہ قوم کے حق میں بددعا کرے اور ان سے نفرت کرکے چلے جانے میں اس طرح جلد بازی سے کام لے اور وحی کا بھی انتظار نہ کرے۔
ہوا یوں کہ جب حضرت یونس علیہ السلام نے قوم کے حق میں بددعا کی اور جلدی میں بستی سے نکل گئے تو شہر والوں نے محسوس کیا کہ وہ اللہ کے سچے نبی تھے۔ ان کے چلے جانے سے ہم پر ضرور عذاب الہٰٰ نازل ہوگا۔ وہ لوگ بہت خوفزدہ ہو رہے تھے اور جگہ جگہ حضرت یونس علیہ السلام کی تلاش کررہے تھے کہ وہ مل جائیں تو انہیں منا کر لے آئیں اور ان کے ہاتھ پر بیعت کریں۔
جب باوجود بڑی تلاش کے بھی حضرت یونس علیہ السلام ان کو نہ ملے تو انہوں نے بارگاہ خدا وندی میں گڑ گڑا کر اپنے پچھلے گناہوں کی معافی مانگی اور سچے دل سے توبہ استغفار کی اور بستی سے باہر نکل کر کھلے میدان میں رو رو کر خدا کی بارگاہ میں عرض کیا۔ ان کی گریہ وزاری اور توبہ قبول ہوئی اور وہ عذاب الہٰی سے بچ گئے اس طرح تمام نینوا والے مسلمان ہوگئے۔
اب حضرت یونس علیہ السلام کو خدا وند کریم نے حکم دیا کہ وہ دوبارہ نینوا میں جائیں اور قوم کو نیکی اور ہدایت کی تبلیغ کریں تاکہ خدا کی مخلوق ان سے فیض یاب ہو۔ جب قوم نے آپ کو دیکھا تو وہ بہت خوش ہوئی اور آپ کی رہنمائی میں دین و دنیا کی کامرانیاں حاصل کرتی رہی۔     
    

حضرت عیسیٰ علیہ السلام

By http://iqbalhassan1.blogspot.com/

حضرت عیسیٰ علیہ السلام




بنی اسرائیل میں عمران اور حنہ میاں بیوی نہایت نیک اور پارسا تھے۔ ان کے ہاں حضرت مریم علیہ السلام کی ولادت ہوئی، انہوں نے حجرت مریم کو ان کے خالو حضرت زکریا علیہ السلام کے سپرد کردیا جو اللہ کے نبی تھے۔ حضرت زکریا علیہ السلام نے حضرت مریم کے لیے ہیکل (مسجد اقصیٰ) کے قریب ہی ایک حجرہ بنادیا جس میں وہ عبادت میں مصروف رہتیں۔ ایک دن حضرت جبرائیل علیہ السلام جو اللہ کے فرشتوں میں سے ایک ہیں، حضرت مریم کے پاس انسانی روپ میں تشریف لائے اور انہیں ایک پاک بیٹے کی بشارت دی جو اللہ کی مرضی سے بغیر نکاح کے ان کے ہاں پیدا ہوگا۔ لوگوں کو اس بات کا علم ہوا تو انہوں نے حضرت مریم پر جھوٹے الزام لگائے لیکن جب حضرت عیسیٰ علیہ السلام ابھی بول بھی نہ سکتے تھے تو انہوں نے سب کے سامنے گواہی دی کہ میں اللہ کا نبی ہوں اور اس نے مجھے کتاب دی ہے۔ ان لوگوں کو یقین ہوگیا کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی پیدائش اللہ کا ایک نشان اور معجزہ ہے۔
جس وقت حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو رسالت ملی۔ اس وقت ان کی قوم میں دنیا جہان کی تمام خرابیاں موجود تھیں۔ وہ لوگ اس قدر سرکش ہوگئے تھے کہ ان کے ایک بادشاہ نے حضرت یحییٰ علیہ السلام کو قتل کردیا تھا۔ اب آپ قوم کو مخاطب کرکے فرمایا کہ میں خدا کا رسول اور پیغمبر ہوں۔ میں خدا کی جانب سے تمہارے لیے ہدایت کا پیغام لے کر آیا ہوں اور تمہاری اصلاح میرے سپرد ہوئی ہے اور خدا کے قانون تورات کو جسے تم نے پس پشت ڈال رکھا ہے، اس کی تصدیق کرتا ہوں۔ اور اس کی تکمیل کے لیے خدا کی کتاب انجیل لے کر آیا ہوں۔ یہ کتاب حق و باطل کا فیصلہ کردے گی۔
حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی پیدائش ہی اللہ تعالیٰ کا بڑا معجزہ تھا۔ مگر اس کے علاوہ بھی اللہ تعالیٰ نے آپ کو چار معجزے عطا کیے۔ جن کا قرآن حکیم میں ذکر آیا ہے، ایک تو یہ کہ آپ مردوں کو زندہ کردیا کرتے تھے، دوسرے کسی اندھے کو آنکھوں پر ہاتھ پھیر دیتے تو ان کی آنکھیں درست ہوجاتیں اور وہ دیکھنے لگ جاتا۔ تیسرے کسی کوڑھی کو پھونک مار دیتے تو وہ بھلا چنگا ہوجاتا۔ چوتھے آپ مٹی کے پرندے بنا کر ان پر پھونک مارتے تو وہ زندہ ہو جاتے اور اڑنے لگتے۔
حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی تبلیغ اور وعظ و نصیحت نے ان پر کوئی اثر نہ کیا بلکہ وہ الٹے ان کے دشمن ہوگئے اور جب وہ ان کے معجزات کو دیکھتے جو حضرت عیسیٰ علیہ السلام ان کو دکھاتے تو وہ بدنیت پکار اٹھتے کہ یہ تو کھلا ہوا جادو ہے اور یہ لوگ حضرت پر بہتان کستے اور ان کی توہین کرتے، لیکن اس کے باوجود بعض اللہ کے نیک بندے ایسے بھی تھے جو آپ پر ایمان لے آئے لیکن ان کی تعداد بہت ہی تھوڑی تھی اور یہ تھے بھی غریب اور مزدور لوگ، مگر قرآن مجید نے ان کو حواریوں اور انصار اللہ کے لقب سے یاد فرمایا ہے۔
یہودی حجرت کے اس طریق کار کو برداشت نہ کرسکے اور جب ان کی کوئی پش نہ گئی تو انہوں نے یہ طے کیا کہ بادشاہ وقت کو آپ کے خلاف کرکے سولی پر لٹکا دیا جائے۔
چنانچہ یہ لوگ بادشاہ وقت کے دربار میں حاضر ہوئے اور کہا یہ شخص ہمارے لیے ہی نہیں، بلکہ آپ کی حکومت کے لیے بھی سخت خطرناک ہے، اس لیے اس کا قلع قمع کرنا نہایت ضروری ہے۔ یہ کوئی جادوگر ہے، اگر اس کا تدارک نہ کیا گیا تو ایک دن عیسیٰ علیہ السلام آپ کے تخت پر قبضہ کرکے بنی اسرائیل کا بادشاہ بن جائے گا۔
حضرت عیسیٰ علیہ السلام بھی یہود کی کارستانیوں سے ناواقف نہیں تھے۔ آپ نے حواریوں کے ساتھ ایک بند مکان میں تھے، یہاں آپ نے ان سے وعدہ لیا کہ وہ حق پر قائم رہیں گے اور حق کی تبلیغ کریں گے۔ اللہ تعالیٰ نے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو آگاہ کیا کہ دشمن جو تیرے خلاف تدبیریں کررہے ہیں یاد رکھو ہم اس سے بہتر خفیہ تدبیر کرنے والے ہیں۔
اور فرمایا کہ نہ تجھ کو دشمن قتل کرسکیں گے اور نہ سولی دے سکیں گے۔ میں تجھ کو اپنی جانب اٹھالوں گا اور تجھ کو اپنی جانب اٹھالوں گا اور تجھ کو کافروں سے پاک رکھنے والا ہوں اور جو لوگ تیری پیروی کریں گے انہیں قیامت تک تیرے منکروں پر غالب رکھنے والا ہوں۔ چنانچہ جب یہ لوگ مکان کے اندر داخل ہوئے تو حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو نہ پا سکے اور شبہ میں پڑ گئے۔
اللہ تعالیٰ قرآن حکیم میں فرمایا ہے کہ نہ تو حضرت عیسیٰ علیہ السلام بن مریم کو قتل کیا گیا ہے اور نہ سولی پر چڑھایا گیا، بلکہ خدا کی اپنی خفیہ تدبیروں کے باعث اصل معاملہ ان پر مشتبہ ہو کر رہ گیا اور جو لوگ یہ کہتے ہیں کہ انہیں قتل کردیا گیا۔ ان کے پاس اس کی کوئی دلیل نہیں وہ اٹکل پچو پاتیں ہی کہہ رہے ہیں، انہوں نے یقیناً حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو قتل نہیں کیا، بلکہ اللہ نے ان کو اپنی جانب اٹھالیا اور اللہ غالب حکمت والا ہے۔ پھر فرمایا کہ کوئی اہل کتاب ایسا باقی نہیں رہے گا جو حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی موت سے پہلے آپ پر ایمان نہ لائے گا اور حضرت عیسیٰ علیہ السلام قیامت کے دن ان اہل کتاب پر گواہ بنیں گے۔

Dua No 02

By http://iqbalhassan1.blogspot.com/


Dua No 01

By http://iqbalhassan1.blogspot.com/


iqbal poetry 02

By http://iqbalhassan1.blogspot.com/


iqbal poetry 01

By http://iqbalhassan1.blogspot.com/